Add To collaction

آسماں ہو رہے ہیں

جہاں ذکر امن و اماں ہو رہے ہیں
وہیں روز فتنے جواں ہو رہے ہیں

وہ سمجھے کہ جل کر دھواں ہو رہے
انھیں کیا خبر آسماں ہو رہے ہیں

اسی سے ہے شاید انھیں بدگمانی
کہ ہم رونقے داستاں ہو رہے ہیں

خدا جانے یہ کیا کیا دوستوں نے
جو دشمن تھے وہ مہرباں ہو رہے ہیں 

یہ کہتا ہے میرے لبوں کا تبسم
ستم آپ کے رایگاں ہو رہے ہیں

یہ بے چارگی جو نہیں ہے تو کیا ہے
جو اہل زباں بے زباں ہو رہے ہیں

وہاں نام آتا ہے جاوید کا بھی
جہاں ان کے قصے بیاں ہو رہے ہیں

جاوید سلطانپوری

   9
9 Comments

Amir

28-Feb-2022 05:29 PM

nice

Reply

Farida

28-Feb-2022 12:04 PM

Nyc

Reply